روزے کا انسانی فطرت کے ساتھ ارتباط
انسان کا سینہ جذبات سے بھرپوررہتاہے اور قلب کاآئینہ مختلف کیفیات سے منعکس ہوتا رہتاہے کبھی اس دل پر خشعیت کا غلبہ ہوتا ہے اور یہ خوف سے کپکپانے لگتاہے کبھی بے چاروں ضعیفوں کو دیکھ کر غم سے بوجھل ہو جاتا ہے اور کبھی یہ مشاہدہ فطرت کے حسین منظر کو مرکز نگاہ بنا کرمحو دید ہو جاتا ہے پھر محبت کی جو لا نیاںاثردکھا تی ہے اور یہ اپنی دنیا کی ساری متغانیاز کسی محبوب کے استغناء پر نثار کر دیتا ہے۔
خوف، غصہ،رحم اور محبت یہ احساس کے وہ مختلف رنگ ہیں جو دل کے آئینے میں جھلکتے رہتے ہیں۔اسلام ایک فطری مذہب ہے،اس نے انسان کو عبادات کا ایک حسین اور جامع گلدستہ دیا جس کی خوشگوار مہکوں نے دل کے ہر جذنے میں اپنا مقام بنالیا ۔ڈرنا اور خوف کھانا انسانی فطرت ہے۔مگر اسلام نے بتایا کہ دل کی دنیا میں جب خشوع و خضوع کا غلبہ ہو اور خوف سے دل ہلنے لگے تو نگاہ جھکا کر باقیات دست بستہ حاضر ہوجائے ۔اور جلال کے قدموں میں خشیت اپنا سرجھکا دے اسی کو اصطلاحِ شرع میں نماز کہتے ہیں۔دوسرا جذبہ ترس کھانے کا ہے انسان کی فطرت میں رحم کا جذبہ ہے۔مگر اسلام نے بتایا کہ اس کے جذبہ کا مرکز ان لوگوں کو ہونا چاہیئے جو اولاًتمہارے اقرباء میں ہوں۔ثانیاًتمہارے ہمسائے اورمحلہ والے،پھر عام غرباء اور مساکین اور جذبہ رحم کے اس اظہار کو اسلامی زبان میں زکوٰۃ کہتے ہیں۔تیسراجذبہ غضب کا ہے۔انسان کو غصہ بھی آتا ہے اور وہ جوش سے از خود رفتہ ہوجاتاہے مگر اسلام نے کہا کہ اس کی برہمی اور از خودرفتگی بھی اللہ کے لیے ہو اور غصّہ بھی اور غضب کے جذبے سے ان لوگوں پرقہر و غضب کی بجلیاں گرائی جائیں جو اللہ تعالیٰ کی زمین پر رہتے ہیں اور اس کے آگے سر نہیں جھکاتے ،برہمی اور غضب کے اس جذبے کے اظہار کو اسلام جہاد کہتاہے۔
انسان کا چوتھا احساس وہ لطیف جذبہ ہے جو کبھی قیس کی صحرا نوردی میں ظاہر ہوتا ہے اور کبھی پروانے کی طرح طلب کی دیوانگی میں اُجاگر ہوتاہے۔اسلام نے انسان کے عشق کو قیس کی صحرا نوردی بھی دی اور پروانے کی دیوانگی بھی دی۔عزیزواقارب کو چھوڑکراپنے وطن سے دُور مکہ کی وادیوں میں گلے میں کفن ڈالے لبیک اللّٰہم لبیک کی صدا لگاتے پھرنا بھی عشق کی ایک شان ہے اور ماہِ صیام میں کھانے پینے کو ترک کرکے خداکی صفت بے نیازی کے قریب ہونے کی کوشش کرنا بھی عشق کی دیوانگی کا مظہر ہے۔
کسی کا قرب حاصل کرنے کا ایک ذریعہ بھی ہے کہ اس کی کسی صفت کو اختیار کرلیا جائے، اسی لیے حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا تخلقوابااخلاق اللّٰہ(اللہ کی صفات سے موصوف ہوجاؤ)اورخداکی بے انداز صفات میں سے ایک صفت یہ بھی ہے کہ وہ خوردونوش اور عملِ تزویج سے پاک ہے اس لیے خدا کا قرب پانے کا ایک ذریعہ یہ بھی ہو گاکہ انسان کھانا پینا ترک کرکے بھوک اورپیاس کی صعوبتیں قبول کرلے۔انسان بھوکا ہوکھانا اُس کے سامنے موجود ہووہ کھاسکتاہوپھر بھی نہ کھائے،عقل کہے یہ دیوانگی ہے مگر اللہ تعالیٰ کا قرب پانے کا متلاشی انسان اُس کی صفت سے ہم آہنگ ہونے کی جنون میں اس دیوانگی کوپروانہ وار قبول کرلیتاہے،اور اسی دیونگی کانا م اسلام نے روزہ رکھا ہے۔
ہم یہ کہہ رہے تھے کہ انسان کادل خوف،رحم،غصّہ اور محبت ان احساسات سے معمور رہتاہے۔اسلام ایک فطری مذہب ہے اور اس نے ایسی جامع عبادات پیش کیں کہ انسان ہرجذبہ میں خدا کی پرستش کرسکے۔نماز،زکوٰۃ،جہاد اور ماہِ صیام کے روزے انہی کیفیات کے مظہر ہیں۔
نماز انسا ن کے خوف کو ظاہر کرتی ہے اور زکوٰۃرحم کی حالت کو،جہاد سے غصّہ، برہمی اور غضب کااظہار ہوتاہے اور روزہ بندہ کی اللہ تعالیٰ سے محبت کے راز سربستہ کو چاک کردیتاہے۔
روزے کی خصوصیت
باقی عبادات کچھ اعمال کو بجالانے کا نام ہے،جنہیں دوسرے بھی جان لیتے ہیں،مثلاً نماز رکوع وسجود کا نام ہے ،جہاد کفار سے جنگ کرنے کو کہتے ہیں،زکوٰۃ کسی کو کچھ دینے سے ادا ہوتی ہے اور ظاہر ہے کہ یہ تمام عبادتیں کسی نہ کسی پر ظاہر ضرور ہوجاتی ہیں اور وہ انہیں کسی نہ کسی طرح جان لیتے ہیں مگر روزہ کچھ کام کرنے کا نام نہیں کہ انسان فلاں کام کرے تو یہ روزہ ہے بلکہ روزہ تو کچھ نہ کرنے کا نام ہے جو کسی کے بتلانے سے بھی معلوم نہیں ہوتا اور بس وہی جانتا ہے جس کے لیے رکھا گیا ہے،لہذا روزہ بندے۔۔۔اور صرف خدا کے درمیان ایک راز ہے۔
محب صادق کا اپنے محبوب کے حضور میں ایک خاموش نذرانہ ہے جو بالکل چپ چاپ اور پوشیدہ طور پر پیش کیاگیا ہے اسی لیے تو کریم ازلی نے اپنے بندے کے اس بے ریا ہدیہ کو قبول کرکے کہا! الصّوْمُ لِیْ وَاَناَاَجْرِیْ بِہٖ(روزہ میرے لیے ہے اور اس کی جزا میں خود دوں گا)۔
روزے کا تعلق دوسروں کی زندگی سے
اسلام نے معاشرے میں توازن قائم رکھنے کے لیے مختلف ضابطے مقرر کیے ہیں اور غریبوں اور مفلسوں کی دستگیری کے لیے اغنیاء کے ہاتھوں زکوٰۃ وصدقات کے قلمدان تھمادئیے مگر کسی کی جیب سے پیسہ اس وقت تک نہیں نکلتا جب تک اس کے دل میں رحم کا جذبہ پیدا نہ ہواور یہ احساس اُس شخص کو کس طرح ہوگا جو ہمیشہ انواع و اقسام کی نعمتوں اورلذتوں میں زندگی گزارتا ہو جو ہمیشہ داد عیش دیتارہا ہووہ افلاس کی تلخیوں کا اندازہ نہیں کرسکتا جو عمر بھر شکم سیر ہوکر کھاتا رہا ہووہ کسی غریب کی بھوک اور پیاس کا احساس نہیںکرسکتا اور جب تک کسی کی تکلیف کا احساس نہیں ہوگا،اُس کی مدد کرنے کا جذبہ پیدا نہیں ہوگا۔
نفسیاتی طور پر آدمی کسی کی تکلیف کا اس وقت احساس کرتا ہے،جب وہ خود اس پر گزر جائے۔اسلام نے تمام مسلمانوں پر روزے فرض کردیے تاکہ اغنیا ء جب روزے کی صعوبتوں سے دوچار ہوں تو انہیں احساس ہوکہ ہمیں ایک دن کھانا نہ ملنے سے اتنی تکلیف ہوئی تو جو پورے سال ایسے مصائب کا سامنا کرتے ہیں ان کا عالم کیا ہوگا پھر یہ احساس اغنیا ء کے دل میں رحم کا جذبہ پیدا کرتا ہے اور وہ غریبوں کی مدد پر آمادہ ہوتے ہیں۔
روزے کاجہاد کی تربیت دینا
اسلامی عبادات کا ایک اہم رکن جہاد ہے ہر مسلمان فطرتاًایک سپاہی ہوتاہے جو بے آب وگیا میدانوں اور لق ودق صحراؤں میں کفر کی چٹانوں سے ٹکراتا ہے اعلاء کلمۃ اللہ کا عزم لے کر پہاڑوں کی چوٹیاںسرکرتا اور سمندروں کے سینوں کو چاک کرکے شرک کے ایوانوں کومنہدم کردیتاہے،مگریہ عزم تن آسانی اور آرام طلبی سے پیدانہیں ہوتا، مجاہدانہ روح کے اس جذبے جو پیدا کرنے کے لیے خواہشات کے خون اور نفس کشی کی ضرورت ہے جو خواہشوں کے گھیرے میں محصور اور روزانہ پیٹ بھر کر کھانے کا عادی ہووہ جنگ کی ہولناکیوں کا تصور نہیں کرسکتا۔
اسلام نے سال میں ایک ماہ کے روزے فرض کردیے تاکہ ہر مسلمان اس ماہ میں ضبطِ نفس اور بھوک وپیاس برداشت کرنے کی مشق کرلے تاکہ میدان جہاد میں اُس کے لیے بھوک و پیاس کی شدت کوئی اجنبی بات نہ ہو اسلام کا ہر فرد سپاہی ہے اوروہ اپنے تمام فرزندوں کو ہر سال جہاد کی تربیت دیتاہے۔
روزے کا انسان کو اس کے مقصد کی طرف متوجہ کرنا
ہر چیز کا ایک مقصد ہوتاہے جب تک کوئی شے اپنے مقصد کے ساتھ ہواُسے مفید سمجھا جاتا ہے اور جب کوئی شے اپنے مقصد سے خالی ہوجائے تووہ لغو اور بے کار ہوجا تی ہے۔’’اذاخلاء الشی عن غایتہٖ فقد لغا‘‘انسان کو دنیا میں بھیجنے کا مقصد’’الالیعبدون‘‘اللہ کی عبادت، کے سوا کچھ نہیں مگر دنیا میں آکر انسان اس کی دلچسپیوں میں اس طرح منہمک ہواکہ عبادت کو اوڑھنا بچھونا بنانے کے بجائے کھانا پینا اور نفس کے تقاضوں کو پورا کرنا مقصود زندگی بنالیا اور اس کی تمام توجہات اورکوشش پیٹ بھرنے اور نفس پروری میں صرف ہونے لگیں۔
اسلام نے ایک ماہ کے روزے فرض کیے اور اس بھولے ہوئے غافل انسان کوبتلایا کہ کھانا پینا ہی مقصود ِزندگی نہیں ہے اور ایک ماہ میں ایک معین عرصے تک کھانے پینے کو چھڑا کر یہ سمجھایا گیا کہ محض کھانا التفات کے لائق نہیں اصل چیز تو اللہ کی بندگی ہے۔
روزے کے دنیاوی فوائد
ہوشیار حُکماء معدے کو اعتدال پر لانے کے لیے مریض کو اسہال دیا کرتے ہیں جس سے جسمانی نظام معتدل ہوجاتا ہے،انتڑیوں کی کثافت صاف ہوجاتی ہے اور جسم کا تنقیہ ہوجاتا ہے۔اسلام کا روزہ بھی انسانی جسم کے لیے اسہال کا کام کردیتا ہے،بھوک و پیاس بدن کے غلیظ مادوں کو جلادیتی ہے اوربدن بالکل صاف ہوجاتاہے۔انسانی زندگی میں اکثر مرتبہ ایسے واقعات پیش آتے ہیں کہ اسے وقت پر کھانا نہیں ملتا،دیرسے ملتا ہے یاملتاہی نہیں اگر اسے بھوک وپیاس برداشت کرنے کی عادت نہ ہوتو ایسے مواقع پر اس سے بڑی بے صبری اور غم و غصّہ کا اظہار ہوتا ہے،روزہ رکھنے سے صبروحلم اور برداشت کی عادت پڑتی ہے اور پھر ایسے مواقع انسان کے لیے اجنبی نہیں رہتے۔
روزے کے فیوض و برکات
اسلام کی ہر عبادت اپنے اندر کریمانہ شان رکھتی ہے گناہ گاروں کی بخشش کا سامان اور نیکو کاروں کی ترقی درجات کا سبب بنتی ہے۔کریم کی دو قسمیں ہیں ایک وہ جس کے پاس محتاج کو چل کر جانا پڑتا ہے جیسے پیاسے کے لیے کنواں انسان پیاسا ہوکنواں اُس کی پیاس بجھا دے گا مگر آکر نہیں،پیاسے کو خود اُس کے پاس جانا ہوگا۔دوسرا کریم وہ ہے کہ محتاج کو اس کے پاس جانا نہیں پڑتااور وہ خود محتاج کے گھر آکر خیرات دے جاتاہے جیسے پیاسے کے لیے بادل ،پیاسے کو اس کے پاس جانا نہیں پڑتا ، بادل خود ابر حمت بن کر اس گھر آکر برس جاتاہے۔
اسلام کی ہر عبادت کریم ہے مگر انسان کو اس کے مقام تک جانا پڑتا ہے وہ آکر کرم نہیں کرتی نمازی کو مسجد تک جاناپڑتا ہے۔حاجی کو بیت اللہ شریف تک اورزکوٰۃ دینے والے کو فقیر تک پہنچنا ہوتاہے مگر روزہ ایسا کریم ہے کہ کسی کو اس تک جانا نہیں پڑتا وہ خود رحمت کی برسات بن کر ہر گھر میں برس جاتا ہے۔گناہ گاروں پر بخشش کی بارشیں کرجاتا ہے۔