TAHREKE ISLAHE MASHRA

TAHREKE ISLAHE MASHRA
QURAN &HADEES &DUA

Sunday, August 7, 2011

انسان کوبتلایا کہ کھانا پینا ہی مقصود ِزندگی نہیں ہے

روزے کا انسانی فطرت کے ساتھ ارتباط
انسان کا سینہ جذبات سے بھرپوررہتاہے اور قلب کاآئینہ مختلف کیفیات سے منعکس ہوتا رہتاہے کبھی اس دل پر خشعیت کا غلبہ ہوتا ہے اور یہ خوف سے کپکپانے لگتاہے کبھی بے چاروں ضعیفوں کو دیکھ کر غم سے بوجھل ہو جاتا ہے اور کبھی یہ مشاہدہ فطرت کے حسین منظر کو مرکز نگاہ بنا کرمحو دید ہو جاتا ہے پھر محبت کی جو لا نیاںاثردکھا تی ہے اور یہ اپنی دنیا کی ساری متغانیاز کسی محبوب کے استغناء پر نثار کر دیتا ہے۔

خوف، غصہ،رحم اور محبت یہ احساس کے وہ مختلف رنگ ہیں جو دل کے آئینے میں جھلکتے رہتے ہیں۔اسلام ایک فطری مذہب ہے،اس نے انسان کو عبادات کا ایک حسین اور جامع گلدستہ دیا جس کی خوشگوار مہکوں نے دل کے ہر جذنے میں اپنا مقام بنالیا ۔ڈرنا اور خوف کھانا انسانی فطرت ہے۔مگر اسلام نے بتایا کہ دل کی دنیا میں جب خشوع و خضوع کا غلبہ ہو اور خوف سے دل ہلنے لگے تو نگاہ جھکا کر باقیات دست بستہ حاضر ہوجائے ۔اور جلال کے قدموں میں خشیت اپنا سرجھکا دے اسی کو اصطلاحِ شرع میں نماز کہتے ہیں۔دوسرا جذبہ ترس کھانے کا ہے انسان کی فطرت میں رحم کا جذبہ ہے۔مگر اسلام نے بتایا کہ اس کے جذبہ کا مرکز ان لوگوں کو ہونا چاہیئے جو اولاًتمہارے اقرباء میں ہوں۔ثانیاًتمہارے ہمسائے اورمحلہ والے،پھر عام غرباء اور مساکین اور جذبہ رحم کے اس اظہار کو اسلامی زبان میں زکوٰۃ کہتے ہیں۔تیسراجذبہ غضب کا ہے۔انسان کو غصہ بھی آتا ہے اور وہ جوش سے از خود رفتہ ہوجاتاہے مگر اسلام نے کہا کہ اس کی برہمی اور از خودرفتگی بھی اللہ کے لیے ہو اور غصّہ بھی اور غضب کے جذبے سے ان لوگوں پرقہر و غضب کی بجلیاں گرائی جائیں جو اللہ تعالیٰ کی زمین پر رہتے ہیں اور اس کے آگے سر نہیں جھکاتے ،برہمی اور غضب کے اس جذبے کے اظہار کو اسلام جہاد کہتاہے۔

انسان کا چوتھا احساس وہ لطیف جذبہ ہے جو کبھی قیس کی صحرا نوردی میں ظاہر ہوتا ہے اور کبھی پروانے کی طرح طلب کی دیوانگی میں اُجاگر ہوتاہے۔اسلام نے انسان کے عشق کو قیس کی صحرا نوردی بھی دی اور پروانے کی دیوانگی بھی دی۔عزیزواقارب کو چھوڑکراپنے وطن سے دُور مکہ کی وادیوں میں گلے میں کفن ڈالے لبیک اللّٰہم لبیک کی صدا لگاتے پھرنا بھی عشق کی ایک شان ہے اور ماہِ صیام میں کھانے پینے کو ترک کرکے خداکی صفت بے نیازی کے قریب ہونے کی کوشش کرنا بھی عشق کی دیوانگی کا مظہر ہے۔

کسی کا قرب حاصل کرنے کا ایک ذریعہ بھی ہے کہ اس کی کسی صفت کو اختیار کرلیا جائے، اسی لیے حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا تخلقوابااخلاق اللّٰہ(اللہ کی صفات سے موصوف ہوجاؤ)اورخداکی بے انداز صفات میں سے ایک صفت یہ بھی ہے کہ وہ خوردونوش اور عملِ تزویج سے پاک ہے اس لیے خدا کا قرب پانے کا ایک ذریعہ یہ بھی ہو گاکہ انسان کھانا پینا ترک کرکے بھوک اورپیاس کی صعوبتیں قبول کرلے۔انسان بھوکا ہوکھانا اُس کے سامنے موجود ہووہ کھاسکتاہوپھر بھی نہ کھائے،عقل کہے یہ دیوانگی ہے مگر اللہ تعالیٰ کا قرب پانے کا متلاشی انسان اُس کی صفت سے ہم آہنگ ہونے کی جنون میں اس دیوانگی کوپروانہ وار قبول کرلیتاہے،اور اسی دیونگی کانا م اسلام نے روزہ رکھا ہے۔

ہم یہ کہہ رہے تھے کہ انسان کادل خوف،رحم،غصّہ اور محبت ان احساسات سے معمور رہتاہے۔اسلام ایک فطری مذہب ہے اور اس نے ایسی جامع عبادات پیش کیں کہ انسان ہرجذبہ میں خدا کی پرستش کرسکے۔نماز،زکوٰۃ،جہاد اور ماہِ صیام کے روزے انہی کیفیات کے مظہر ہیں۔

نماز انسا ن کے خوف کو ظاہر کرتی ہے اور زکوٰۃرحم کی حالت کو،جہاد سے غصّہ، برہمی اور غضب کااظہار ہوتاہے اور روزہ بندہ کی اللہ تعالیٰ سے محبت کے راز سربستہ کو چاک کردیتاہے۔

روزے کی خصوصیت
باقی عبادات کچھ اعمال کو بجالانے کا نام ہے،جنہیں دوسرے بھی جان لیتے ہیں،مثلاً نماز رکوع وسجود کا نام ہے ،جہاد کفار سے جنگ کرنے کو کہتے ہیں،زکوٰۃ کسی کو کچھ دینے سے ادا ہوتی ہے اور ظاہر ہے کہ یہ تمام عبادتیں کسی نہ کسی پر ظاہر ضرور ہوجاتی ہیں اور وہ انہیں کسی نہ کسی طرح جان لیتے ہیں مگر روزہ کچھ کام کرنے کا نام نہیں کہ انسان فلاں کام کرے تو یہ روزہ ہے بلکہ روزہ تو کچھ نہ کرنے کا نام ہے جو کسی کے بتلانے سے بھی معلوم نہیں ہوتا اور بس وہی جانتا ہے جس کے لیے رکھا گیا ہے،لہذا روزہ بندے۔۔۔اور صرف خدا کے درمیان ایک راز ہے۔

محب صادق کا اپنے محبوب کے حضور میں ایک خاموش نذرانہ ہے جو بالکل چپ چاپ اور پوشیدہ طور پر پیش کیاگیا ہے اسی لیے تو کریم ازلی نے اپنے بندے کے اس بے ریا ہدیہ کو قبول کرکے کہا! الصّوْمُ لِیْ وَاَناَاَجْرِیْ بِہٖ(روزہ میرے لیے ہے اور اس کی جزا میں خود دوں گا)۔

روزے کا تعلق دوسروں کی زندگی سے
اسلام نے معاشرے میں توازن قائم رکھنے کے لیے مختلف ضابطے مقرر کیے ہیں اور غریبوں اور مفلسوں کی دستگیری کے لیے اغنیاء کے ہاتھوں زکوٰۃ وصدقات کے قلمدان تھمادئیے مگر کسی کی جیب سے پیسہ اس وقت تک نہیں نکلتا جب تک اس کے دل میں رحم کا جذبہ پیدا نہ ہواور یہ احساس اُس شخص کو کس طرح ہوگا جو ہمیشہ انواع و اقسام کی نعمتوں اورلذتوں میں زندگی گزارتا ہو جو ہمیشہ داد عیش دیتارہا ہووہ افلاس کی تلخیوں کا اندازہ نہیں کرسکتا جو عمر بھر شکم سیر ہوکر کھاتا رہا ہووہ کسی غریب کی بھوک اور پیاس کا احساس نہیںکرسکتا اور جب تک کسی کی تکلیف کا احساس نہیں ہوگا،اُس کی مدد کرنے کا جذبہ پیدا نہیں ہوگا۔

نفسیاتی طور پر آدمی کسی کی تکلیف کا اس وقت احساس کرتا ہے،جب وہ خود اس پر گزر جائے۔اسلام نے تمام مسلمانوں پر روزے فرض کردیے تاکہ اغنیا ء جب روزے کی صعوبتوں سے دوچار ہوں تو انہیں احساس ہوکہ ہمیں ایک دن کھانا نہ ملنے سے اتنی تکلیف ہوئی تو جو پورے سال ایسے مصائب کا سامنا کرتے ہیں ان کا عالم کیا ہوگا پھر یہ احساس اغنیا ء کے دل میں رحم کا جذبہ پیدا کرتا ہے اور وہ غریبوں کی مدد پر آمادہ ہوتے ہیں۔

روزے کاجہاد کی تربیت دینا
اسلامی عبادات کا ایک اہم رکن جہاد ہے ہر مسلمان فطرتاًایک سپاہی ہوتاہے جو بے آب وگیا میدانوں اور لق ودق صحراؤں میں کفر کی چٹانوں سے ٹکراتا ہے اعلاء کلمۃ اللہ کا عزم لے کر پہاڑوں کی چوٹیاںسرکرتا اور سمندروں کے سینوں کو چاک کرکے شرک کے ایوانوں کومنہدم کردیتاہے،مگریہ عزم تن آسانی اور آرام طلبی سے پیدانہیں ہوتا، مجاہدانہ روح کے اس جذبے جو پیدا کرنے کے لیے خواہشات کے خون اور نفس کشی کی ضرورت ہے جو خواہشوں کے گھیرے میں محصور اور روزانہ پیٹ بھر کر کھانے کا عادی ہووہ جنگ کی ہولناکیوں کا تصور نہیں کرسکتا۔

اسلام نے سال میں ایک ماہ کے روزے فرض کردیے تاکہ ہر مسلمان اس ماہ میں ضبطِ نفس اور بھوک وپیاس برداشت کرنے کی مشق کرلے تاکہ میدان جہاد میں اُس کے لیے بھوک و پیاس کی شدت کوئی اجنبی بات نہ ہو اسلام کا ہر فرد سپاہی ہے اوروہ اپنے تمام فرزندوں کو ہر سال جہاد کی تربیت دیتاہے۔

روزے کا انسان کو اس کے مقصد کی طرف متوجہ کرنا
ہر چیز کا ایک مقصد ہوتاہے جب تک کوئی شے اپنے مقصد کے ساتھ ہواُسے مفید سمجھا جاتا ہے اور جب کوئی شے اپنے مقصد سے خالی ہوجائے تووہ لغو اور بے کار ہوجا تی ہے۔’’اذاخلاء الشی عن غایتہٖ فقد لغا‘‘انسان کو دنیا میں بھیجنے کا مقصد’’الالیعبدون‘‘اللہ کی عبادت، کے سوا کچھ نہیں مگر دنیا میں آکر انسان اس کی دلچسپیوں میں اس طرح منہمک ہواکہ عبادت کو اوڑھنا بچھونا بنانے کے بجائے کھانا پینا اور نفس کے تقاضوں کو پورا کرنا مقصود زندگی بنالیا اور اس کی تمام توجہات اورکوشش پیٹ بھرنے اور نفس پروری میں صرف ہونے لگیں۔

اسلام نے ایک ماہ کے روزے فرض کیے اور اس بھولے ہوئے غافل انسان کوبتلایا کہ کھانا پینا ہی مقصود ِزندگی نہیں ہے اور ایک ماہ میں ایک معین عرصے تک کھانے پینے کو چھڑا کر یہ سمجھایا گیا کہ محض کھانا التفات کے لائق نہیں اصل چیز تو اللہ کی بندگی ہے۔

روزے کے دنیاوی فوائد
ہوشیار حُکماء معدے کو اعتدال پر لانے کے لیے مریض کو اسہال دیا کرتے ہیں جس سے جسمانی نظام معتدل ہوجاتا ہے،انتڑیوں کی کثافت صاف ہوجاتی ہے اور جسم کا تنقیہ ہوجاتا ہے۔اسلام کا روزہ بھی انسانی جسم کے لیے اسہال کا کام کردیتا ہے،بھوک و پیاس بدن کے غلیظ مادوں کو جلادیتی ہے اوربدن بالکل صاف ہوجاتاہے۔انسانی زندگی میں اکثر مرتبہ ایسے واقعات پیش آتے ہیں کہ اسے وقت پر کھانا نہیں ملتا،دیرسے ملتا ہے یاملتاہی نہیں اگر اسے بھوک وپیاس برداشت کرنے کی عادت نہ ہوتو ایسے مواقع پر اس سے بڑی بے صبری اور غم و غصّہ کا اظہار ہوتا ہے،روزہ رکھنے سے صبروحلم اور برداشت کی عادت پڑتی ہے اور پھر ایسے مواقع انسان کے لیے اجنبی نہیں رہتے۔

روزے کے فیوض و برکات
اسلام کی ہر عبادت اپنے اندر کریمانہ شان رکھتی ہے گناہ گاروں کی بخشش کا سامان اور نیکو کاروں کی ترقی درجات کا سبب بنتی ہے۔کریم کی دو قسمیں ہیں ایک وہ جس کے پاس محتاج کو چل کر جانا پڑتا ہے جیسے پیاسے کے لیے کنواں انسان پیاسا ہوکنواں اُس کی پیاس بجھا دے گا مگر آکر نہیں،پیاسے کو خود اُس کے پاس جانا ہوگا۔دوسرا کریم وہ ہے کہ محتاج کو اس کے پاس جانا نہیں پڑتااور وہ خود محتاج کے گھر آکر خیرات دے جاتاہے جیسے پیاسے کے لیے بادل ،پیاسے کو اس کے پاس جانا نہیں پڑتا ، بادل خود ابر حمت بن کر اس گھر آکر برس جاتاہے۔

اسلام کی ہر عبادت کریم ہے مگر انسان کو اس کے مقام تک جانا پڑتا ہے وہ آکر کرم نہیں کرتی نمازی کو مسجد تک جاناپڑتا ہے۔حاجی کو بیت اللہ شریف تک اورزکوٰۃ دینے والے کو فقیر تک پہنچنا ہوتاہے مگر روزہ ایسا کریم ہے کہ کسی کو اس تک جانا نہیں پڑتا وہ خود رحمت کی برسات بن کر ہر گھر میں برس جاتا ہے۔گناہ گاروں پر بخشش کی بارشیں کرجاتا ہے۔

Sunday, July 3, 2011

:: DUA ::


اولاد کیلئے دُعا

...
ہمارے ہر دلعزیز اور پیارے شیخ صاحب کا سنایا ہوا یہ مختصر سا قصہ ہر ماں کیلئے ایک کھلا خط ہے۔
شیخ صاحب فرماتے ہیں کہ اے ماؤں، اپنے اولاد کے بارے میں اللہ سے ڈرتی رہو۔ چاہے کتنا ہی غصہ کیوں نہ ہو اُن کیلئے منہ سے خیر کے کلمے ہی نکالا کرو۔ اولاد کو لعن طعن، سب و شتم اور بد دعائیں دینے والی مائیں سُن لیں کہ والدین کی ہر ...دُعا و بد دُعا قبول کی جاتی ہے۔

یہ سب باتیں شیخ صاحب نے جمعہ کے خطبہ میں اپنے بچپن کی باتیں دہراتے ہوئے فرمائیں۔ شیخ صاحب فرماتے ہیں کہ ایک دفعہ ایک لڑکا ہوا کرتا تھا، اپنے ہم عُمر لڑکوں کی طرح شرارتی اور چھوٹی موٹی غلطیاں کرنے والا۔ مگر ایک دن شاید غلطی اور شرارت ایسی کر بیٹھا کہ اُسکی ماں کو طیش آگیا، غصے سے بھری ماں نے لڑکے کو کہا (غصے سے بپھر جانے والی مائیں الفاظ پر غور کریں) لڑکے کی ماں نے کہا؛ چل بھاگ اِدھر سے، اللہ تجھے حرم شریف کا اِمام بنائے۔ یہ بات بتاتے ہوئے شیخ صاحب پھوٹ پھوٹ کر رو دیئے، ذرا ڈھارس بندھی تو رُندھی ہوئی آواز میں بولے؛ اے اُمت اِسلام، دیکھ لو وہ شرارتی لڑکا میں کھڑا ہوا ہوں تمہارے سامنے اِمام حرم عبدالرحمٰن السدیس۔

اللہ اَکبر، اگر وہ شرارتی لڑکا شیخ عبدالرحمٰن السدیس حفظہ اللہ صاحب بذاتِ خود ہو سکتے ہیں جو ماں کی دعا کی بدولت حرم شریف کے ہر دلعزیز اِمام بن کر عالم اِسلام میں دھڑکنے والے ہر دِل پر راج کر رہے ہیں!!! اِس طرح تو واقعی یہ مختصر سا قِصہ ہر ماں کیلئے ایک درسِ عبرت ہے ۔۔
( TAHREKE ISLAHE MASHRA )

Friday, July 1, 2011

;; 786 ;;


السلام علیکم

سوال۔

کیا بسم اللہ کی جگہ 786 استعمال کیا جا سکتا ہے؟
...
جواب۔

پہلی بات یہ کہ یہ طریقہ ہم کو قرآن و سنت سے کہیں بھی نہیں ملتا بلکہ اس کی کڑیاں کہیں اور جاکر ملتی ہیں مثلا ہندو مت مجوسی اور یہودیت میں اسلام کا اس سے کوئی واسطہ نہیں ہےاور ہم لوگ ہیں کہ بلا سوچے سمجھے جس نے جو بات کر دی اُس کی تقلید شروع کر دی اور میں آپ سے درخواست کرتا ہوں کہ آپ میری باتوں کی بھی تحقیق کیجیئے گا۔اور اگر میں غلط ہوا تو ان شاء اللہ اپنی اصلاح کروں گا۔

بعض لوگ کہتے ہیں ہم اس لیے ایسا لکھتے ہیں کہ کہیں بسم اللہ کی بے ادبی نہ ہو جائے۔

میرا ان لوگوں سے پہلا سوال یہ ہے کہ بسم اللہ کے ادب کا لحاض نبی (صلی اللہ علیہ وسلم) اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سےزیادہ کوئی کر سکتا ہے؟

بلکل نہیں کر سکتا تو آپ (صلی اللہ علیہ وسلم) نے جب غیر مسلموں کو دعوتی خط لکھے تو آپ (صلی اللہ علیہ وسلم) نے پوری بسم اللہ ہی لکھی تھی نہ کہ آدھی اور نہ ہی اس کی جگہ کوئی اور الفاظ استعمال کیےتو ہمارے لیے سب سے بہترین طریقہ نبی (صلی اللہ علیہ وسلم) کی زندگی ہے نہ آج کے کسی بندے کا فہم یا بات، تو آج بھی ہم جب بھی کوئی تحریر لکھیں گے تو وہ بسم اللہ لکھ کر ہی شروع کریں گے نہ کہ786 لکھ کر، کیوں نہ وہ تحریر ہم کسی کافر کی طرف بھیج رہے ہوں۔ سنت سے ہم کو یہی ملتا ہے۔ قرآن مجید میں اللہ تعالٰی سلیمان علیہ السلام کا واقعہ بیان کرتے ہیں

قَالَتْ يَا أَيُّهَا الْمَلَأُ إِنِّي أُلْقِيَ إِلَيَّ كِتَابٌ كَرِيمٌ ﴿٢٩
إِنَّهُ مِن سُلَيْمَانَ وَإِنَّهُ بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ ﴿٣٠

(ملکہ نے) کہا: اے سردارو! میری طرف ایک نامۂ بزرگ ڈالا گیا ہے، (٢٩) بیشک وہ (خط) سلیمان (علیہ السلام) کی جانب سے (آیا) ہے اور وہ اللہ کے نام سے شروع (کیا گیا) ہے جو بے حد مہربان بڑا رحم فرمانے والا ہے، (٣٠)۔ سورۃ النمل

اس آیت سے بھی یہی ہم کو درس ملتا ہے کہ چاہے وہ خط کسی کافر کو بھی کیوں نہ لکھنا ہو پوری بسم اللہ لکھ کر ہی شروع کرنا چاہیے۔جو آجکل بسم اللہ کی جگہ 786 لکھا جا رہا ہے یہ غلط ہے۔ بعض لوگ بسم اللہ کی جگہ 786 تو لکھتے ہیں تو کیا کبھی انہوں نےالسلام علیکم کی جگہ اس کے اعداد لکھے ہیں؟ جو کہ یہ بنتے ہیں 222 یقینا کبھی کسی نے ایسا نہیں لکھا تو بسم اللہ کے ساتھ ہی یہ معاملہ کیوں کیا جاتا ہے؟دوسرا اس کا نقصان بھی بہت ہوتا ہے مثلا اگر ہم بسم اللہ لکھیں تو کیونکہ یہ قرآن کی آیت ہے اس لیے ہر لفظ پر 10 نیکیاں ملتی ہیں ٹوٹل اس میں 10 حروف بنتے ہیں تو نیکیاں 190 ملتی ہیں اور اگر ہم 786 لکھیں تو ایک تو ہم 190 نیکیوں سے محروم ہو گے اور دوسرا ایک ایسا عمل کر کے جو کہ قرآن و سنت کے خلاف ہے بدعت کے مرتکب بھی بن گے۔

میں سمجھتا ہوں کہ ایک عقل مند انسان اپنا اتنا نقصان نہیں کرنا چاہے گا۔

اب آتے ہیں علم الاعداد کی طرف وہاں ہم کو خطرناک سورتِ حال نظر آتی ہے کہ بسم اللہ الرحمٰن الرحیم کے 786 نہیں بلکہ 787 اعداد ہوتے ہیں اور ہرے کشنا کے 786 اعداد بنتے ہیں تفصیلات حسبِ ذیل ہیں۔

ب س م ا ل ل ہ = بسم اللہ

2+60+40+1+30+30+5 = 168

ا ل ر ح م ا ن = الرحمٰن

1+30+200+8+40+1+50 = 330

ا ل ر ح ی م = الرحیم

1+30+200+8+10+40 = 289

168+330+289 = 787

بسم اللہ الرحمٰن الرحیم کا مجموعی نمبر 787 ہوتا ہے جبکہ ''ہری کرشنا'' اور روی شنکرکا مجموعی نمبر 786 ہوتا ہے تفصیلات حسب ذیل ہیں:

ہ ر ی ک ر ش ن ا = ہری کرشنا

5+200+10+20+200+300+50+1 = 786

ر و ی ش ن ک ر = روی شنکر

200+6+10+300+50+20+200 = 786

بالفرض اگر مان بھی لیا جائے کہ بسم اللہ الرحمن الرحیم کے اعداد 786 ہی ہیں جیساکہ بہت سارے لوگوں کا اس پر اصرار ہے تو اب 786 نمبر لکھ کر ہندو ''ہری کرشنا''پڑھ لیں گے اور مسلمان بسم اللہ الرحمن الرحیم پڑھ لیں گے،اس طرح اور بھی کئی الفاظ بنتے ہوں گے جبکہ بسم اللہ کا اور کوئی بھی معنی نہیں بنتا تو اس سے معلوم ہوا کہ 786 لکھنے سے بہت سی قباحتیں پیدا ہو جاتی ہیں۔

علم الاعداد ایک وسیع علم ہے اس میں کائنات کے کئی معاملات سے بحث کی جاتی ہے اسی طرح اس علم کا ایک کھلا چیلنج قرآن کریم بھی ہے جو اس علم پر پوری اترتی ہے اور اس کی سچائی کو ببانگ دہل سچا ثابت کرتی ہے ۔

اگر اس طرح کے اعداد بنتے بھی ہیں تو اسے قرآن کی عظیم آیات کی جگہ استعمال کرنا غلط ہے اور باقی اللہ سب بہتر جاننے والا ہے کہ کون غلط ہے اور درست

اللہ ہم سب کو گمراہیوں سے بچائے اور سیدھےراستے پر چلنے کی توفیق عطافرمائے آمین یارب العالمین

Monday, June 27, 2011

MARRIAGE PROPOSEL

It is permissible for a Muslim man to see the woman to whom he intends to propose marriage before taking further steps so that he can enter into the marriage knowing what is ahead for him. Otherwise, if he has not seen her before marriage, he may not find her looks to his liking and may have regrets after he is married to her.
The eye is the messenger of the heart; when the eyes meet, the hearts and the souls of man and woman may meet as well. Muslim reported Abu Hurairah as saying that a man came to the Prophet (peace be on him) and told him that he had contracted to marry a woman of the Ansar. "Did you look at her?" the Prophet (peace be on him) asked. "No," he said, 'Then go and look at her,' said the Prophet (peace be on him), 'for there is something in the eyes of the Ansar,' meaning that some of them have a defect of their eyes
Al-Mughira Ibn Shu'bah said, I asked for a woman in marriage and Allah's Messenger (peace be on him) asked me whether I had looked at her. When I replied that I had not, he said 'Then look at her, for it may produce love between you.' I went to her parents and informed them of the Prophet's advice. They seemed to disapprove of the idea. Their daughter heard the conversation from her room and said, 'If the Prophet (peace be on him) has told you to look at me, then look.' I looked at her, and subsequently I married her. (Reported by Ahmad, Tirmidhi, Ibn Majah, Ibn Hibban, and Darimi.)
The Prophet (peace be on him) did not specify either to Mughirah or to the other man how much of the woman they were permitted to see. Some scholars are of the opinion that looking is limited to seeing the face and hands. However, it is permissible for anyone to see the face and hands as long as no desire is involved; therefore, if asking for woman in marriage is an exemption, obviously the man making the proposal should be able to see much more of the woman than that. The Prophet (peace be on him) said, "When one of you asks for woman in marriage, if he is able to look at what will induce him to marry her, he should do so." (Reported by Abu Daoud.)
Some scholars have gone to one extreme or another in relation to this permission, but the best course seems to be the middle one. One researcher considers it quite appropriate in our time that the man who is proposing be allowed to see the woman as she normally appears before her father, brother, and other muharramah. He says: In the context of the above hadith, he may even accompany her, together with her father or some other mahrem as chaperone, on her usual visits to relatives or to public places, while clad in full hijab. (Hijab denotes the proper Islamic dress. (Trans.)) In this way he will have the opportunity to get an insight into her reasoning, behavior, and personality. This is a part of the meaning of the hadith, "...to look at what will induce him to marry her." (Al-Bahee al-Khooly, Al-Mar'ah Bain al-bayn al-bait wal-Mujtamah'.)
If the man's intention of marriage is sincere, he is permitted to see the woman with or without her and her family's knowledge. Jarir ibn 'Abdullah said concerning his wife, "(Before marriage) I used to hide under a tree to see her."
From the hadith concerning al-Mughira we understand that the father of a girl cannot, out of deference to custom and tradition, prevent a suitor who is in earnest from seeing her, for customs and traditions must be governed by the Shari'ah. How is it possible that the Divine Law should subjected to the whims of human beings? On the other hand, however, neither the father, the suitor, or the fiancee can stretch this permission to such an extent that the young man and woman, under the pretext of betrothal or engagement, go to movie theaters, clubs, and shopping places together without being accompanied by a mahrem of hers, a practice which has become common today among Muslims who are fond of imitating Western civilization and its customs.
3. Prohibited Proposals

It is haram for a Muslim man to propose to a divorced or widowed woman during her 'iddah (that is, the waiting period during which she is not allowed to remarry), for this waiting period is part of the previous marriage and may not be violated. Although one may, during this period, convey his desire for marriage through indirect hints or suggestions, it may not be done through an explicit proposal. Says Allah Ta'ala: And there is no blame on you in what you proclaim or hide in your minds concerning betrothal to women....(2:235)
It is likewise forbidden to the Muslim to propose to a woman who is already betrothed to a brother Muslim; the one whose proposal has already been accepted has acquired a right which must be safeguarded in consideration of goodwill and affection among people, especially among his brother Muslims. However, if the first suitor terminates his betrothal or gives the second suitor his permission, there is no harm in proceeding with it.
Muslim reported that the Messenger of Allah (peace be on him) said, "A Believer is a brother to another Believer. It is therefore not lawful for him to outbid his brother in buying something or to propose to a woman when his brother has done so, unless he gives him permission." And al-Bukhari reported that the Prophet (peace be on him) said, "A man must not propose to anther man's betrothed unless he withdraws or gives him permission."
( Tahrek e Islah e Mashra )

Saturday, June 25, 2011

"HONEY" & KLAUNJI"



Healing power ofHONEY” and the Black Seed “KLAUNJI”

The findings will amaze you and the research will delight you but you wont be shocked because you have known it all along! Truth revealed to muslims approximately 1400 years ago!

A powerful Verse from Quran that tells us where honey comes from, and is of different colors and is extremely beneficial for human health and can heal certain illnesses.

"...From with in their (the bees) abdomens comes a fluid of different colors; wherein is a healing for mankind ...”
Surah an-Nahl-V 69.

image.png

Scientists after having done decades of research have agreed that Honey is safe and has no allergic or side effects. Fructose present in the honey encourages the blood absorb water without sodium from the intestine, a desirable effect that may save us from a lot of health problems.
It reduces the duration of diarrhea in patients infected by salmonella, shigala and E. coli. This is due to the antibiotic and anti fungal properties of honey.

image.pnghttp://www.islamicmiracles.net/bearhoney.jpg

Honey is a good substitute for glucose, good for diarrhea, stomach and intestinal infections, ulcers, cough, skin, wounds, burns, weakness and iron deficiency etc.

image.png

A honey bee on a black seed flower!

image.pnghttp://www.islamicmiracles.net/beeAg00002_.gif

Honey is an excellent healing agent and food substance containing rapidly absorbable sugars, proteins, minerals, vitamins and amino acids and healing agents. Did you know burns heal much faster with the topical application of honey???
And deep wounds like abdominal wounds disruptions after caesarian section also heal faster with the application of honey.


One of these healing components known as " Inhibine", gets destroyed when heated.

And we know that the Holy Prophet s.a.w. often liked to drink COLD water sweetened with honey. He s.a.w. is reported to have repeatedly advised a man suffering from gastro-intestinal problems to use honey to cure his ailment.

The black seed (Nigella sativa), also known as the black caraway, the black cumin, or referred to in Arabic as Habbatul Barakah meaning the blessed seed, has also been used through out history ( in Arabian peninsula) to treat a variety of illnesses. In Urdu it is well known as: KLAUNJI.

Regarding the black seed, Abu Hurairah narrated that Allah's Messenger Salalahu alayhe wa sallam, said, " Use this black seed regularly, because it has cure for every disease except death." (Bukhari)

image.pnghttp://www.islamicmiracles.net/blackseed.JPG

Flower of Black seed

“ KLAUNJI ”

http://www.islamicmiracles.net/beeAg00002_.gifimage.png

Research on: Black seed is also finally getting some limelight from the world of medicine. The composition of black seed includes:
15 Amino acid, proteins, carbohydrates, oils ( both fixed and volatile), alkaloids, saponins, crude fiber and traces of minerals including :" calcium, potassium, iron, and sodium. There are still many components in black seeds that haven’t been identified!!!!!!!!!!!!!

Besides its capacity to reduce inflammation, improve kidney functions, improve milk production in nursing mothers, strengthens the liver, and increase the body’s resistance against diseases, more recent benefits of the black seed includes its potential for the treatment of the bronchial asthma, bronchitis and other respiratory ailments, its capacity to lower excess blood pressure and improve the heart conditions and its antimicrobial activity against a host of a lot of disease causing organisms like E.coli and Staphylococcus etc.

One of the most promising findings is the observations by the doctors that the black seed alone, or in combination with garlic is a potent anti-cancer agent!

However, KLAUNJI “black seed” or “black seed oil” should only be taken in small quantities as larger amounts can irritate the mucosal linings of the digestive tract.

So these articles list only a sample of the research being carried out on these two amazing natural healers. It emphasizes the fact that "modern" science must come a full turn in the end and acknowledge the divine truth as revealed by Allah, Subhanatallah, and His Prophet Muhammad s.a.w- because science, once again, has finally discovered another miracle of the Quran. Allah subhanatala revealed this truth to muslims some 1400 years ago:

" And your Lord inspired to the bee, 'Take for yourself among the mountains, houses (i.e. hives), and among the trees and [in] that which they construct. Then eat from all the fruit and follow the ways of your Lord laid down [for you].' There emerges from there bellies a drink, varying in colors, in which there is healing for people. Indeed in that is a sign for people who give thought."
[

TAHREKE ISLAHE MASHRA


Thursday, June 9, 2011

  • سُنا ہے شیر کا جب پیٹ بھر جائے تو وہ حملہ نہیں کرتا
    درختوں کی گھنی چھائوں میں جا کر لیٹ جاتا ہے
    ہوا کے تیز جھونکے جب درختوں کو ھلاتے ہیں
    تو مَینا اپنے بچے چھوڑ کر کوئے کے بچوں کو
    پَروں سے ڈھانپ لیتی ہے
    ...سُنا ہے گھونسلے سے کوئی بچہ گِر پڑے تو
    سارا جنگل جاگ جاتا ہے
    سُنا ہے جب کِسی ندی کے پانی میں بَئے کے گھونسلے کا گندمی سائہ لرزتا ہے
    تو ندی کی رَوپہلی مچھلیاں اُس کو پڑوسی مان لیتی ہیں
    کوئی طوفان آجائے ، کوئی پُل ٹوٹ جائے
    تولکڑی کے ِکِسی تختے پر گلہری ، سانپ ، بکری اور چیتا ساتھ ہوتے ہیں
    سُنا ہے جنگلوں کا بھی کوئی دستور ہوتا ہے
    خُدا وندا ، جلیل و معتبر ، دانا و بِینا ، منصف و اکبر
    میرے اِس شہر میں اب جنگلوں کا ہی کوئی قانون نافذ کر
    سُنا ہے جنگلوں کا بھی کوئی دستور ہوتا ہے۔۔۔

SURAHE FATEHA


بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ ﴿١﴾ الْحَمْدُ لِلَّـهِ رَبِّ الْعَالَمِينَ ﴿٢﴾ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ ﴿٣﴾ مَالِكِ يَوْمِ الدِّينِ ﴿٤﴾ إِيَّاكَ نَعْبُدُ وَإِيَّاكَ نَسْتَعِينُ ﴿٥﴾ اهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيمَ ﴿٦﴾ صِرَاطَ الَّذِينَ أَنْعَمْتَ عَلَيْهِمْ غَيْرِ الْمَغْضُوبِ عَلَيْهِمْ وَلَا الضَّالِّينَ ﴿٧

شروع الله کا نا...م لے کر جو بڑا مہربان نہایت رحم والا ہے (١) سب طرح کی تعریف خدا ہی کو (سزاوار) ہے جو تمام مخلوقات کا پروردگار ہے (٢) بڑا مہربان نہایت رحم والا (٣) انصاف کے دن کا حاکم (٤) (اے پروردگار) ہم تیری ہی عبادت کرتے ہیں اور تجھ ہی سے مدد مانگتے ہیں (٥) ہم کو سیدھے رستے چلا (٦) ان لوگوں کے رستے جن پر تو اپنا فضل وکرم کرتا رہا نہ ان کے جن پر غصے ہوتا رہا اور نہ گمراہوں کے (٧

In the name of Allah, the Entirely Merciful, the Especially Merciful. (1) [All] praise is [due] to Allah, Lord of the worlds - (2) The Entirely Merciful, the Especially Merciful, (3) Sovereign of the Day of Recompense. (4) It is You we worship and You we ask for help. (5) Guide us to the straight path - (6) The path of those upon whom You have bestowed favor, not of those who have evoked [Your] anger or of those who are astray. (7)

آمین